بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بانی جامعہ حضرت اقدس حافظ محمد صغیر احمد رحمتہ اللہ علیہ

تعارف 

تعارف بانی جامعہ حضرت اقدس حافظ محمد صغیر احمد رحمتہ اللہ علیہ

بانی وصدر اول جامعہ احسان القران والعلوم النبویہ لاہور

مختصر تعارف,حیات و خدمات ایک نظر میں

ولادت با سعادت:

 حضرت جی نور اللہ مرقدہ کا اسم گرامی” صغیر احمد” تھا  ۔ آپ کی ولادت 1936 ءبمطابق۱۳۵۵ھ میں دہلی کے محلے” پنجابی کٹڑے” میں ہوئی۔ دہلی میں ہی والد ماجد "حاجی صبغت اللہ مرحوم "نے اپنی نگرانی میں قرآن مجید حفظ کروایا اور سکول کی ابتدائی تعلیم دلوائی۔

 تقسیم ہند ہجرت پاکستان:

 عمر کے ۱۳ ویں سال قیام پاکستان کے بعد جنوری 1948 ءمیں اپنے والد ماجد کے ہمراہ ہجرت کر کے لاہور آگئے۔ تعلیم کا دوبارہ آغاز فرمایا اور "چشتیہ ہائی سکول لاہور "میں میٹرک کرنے کے بعد "ادیب عالم” کا امتحان بھی پاس کیا۔ بعد ازاں پنجابی فاضل کا امتحان بھی دیا ۔کامرس کی تعلیم کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا کہ والد ماجد کے فرمانے پر تجارت کا آغاز کیا۔

 تعلق اصلاح و بیعت:

 پہلی بار 1967ء بمطابق۱۳۸۶ھ  میں دورانِ طواف برکۃ العصرقطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ واعلی اللہ  مراتبہ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور بعد حج مدینہ منورہ میں بیعت سے مشرف ہوئے۔

 حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ سے بیعت ہوئے تو انہی کے ہو کر رہ گئے۔ ان کے نزدیک اتباع سنت اور اپنے شیخ کی اعتبار سے زیادہ کوئی چیز  عزیز نہیں تھی پھر وہ لمحہ بھی آیا کہ 19 جولائی 1980 ءمطابق۲۶  رمضان ۱۴۰۰ھ کو حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے فیصل آباد والے اعتکاف کے دوران خلافت اور اجازت بیعت سے نوازا۔

 کسبِ حلال تجارت:

 حضرت قدس سرہ  اگرچہ خاندانی تاجر تھے اور” جمعیت پنجابی سودا گراں شاخ لاہور” سے تعلق رکھتے تھے لیکن "التاجر الصدوق الامین” کا عملی نمونہ تھے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے تجارت میں ہی ان کو راہ سلوک و تزکیہ اور نسبت الہیہ کے تمام مراحل طے کروائے تھے۔ تاہم انہوں نے تجارت کے ساتھ دین کے تمام شعبوں میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اپنی تجارتی زندگی کے بیسیوں مراحل میں شرعی احکام کو کبھی نظر انداز نہیں کیا ،بلکہ بعض اوقات ظاہری طور پر لاکھوں کا نقصان شریعت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے خوش دلی سے برداشت کیا۔ تجارتی معاملات میں رشوت دے کر کام کروانے سے ہمیشہ اجتناب کیا اور اپنے خاندان کو بھی اسی کی تربیت دی۔

دعوت و تبلیغ:

 حضرت قدس سرہ  کا  دعوت و تبلیغ سے تعلق بہت گہرا تھا ۔انہوں نے اپنی برادری اور خاندان کو دین کے ساتھ اسی ذریعے سے جوڑا۔ کافی عرصے تک وہ بلال مرکز  لاہور اور رائیونڈ کی شوری میں شامل رہے ۔لاہور کے پرانے مرکز "بلال پارک” کی جگہ کے لیے  ان کی خدمات عظیم صدقہ جاریہ ہیں جن کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

 خانقاہی خدمات:

 خانقاہ احسانیہ کے ذریعے حضرت جی رحمہ اللہ نے فیض باطنی کا آغاز فرمایا جو بڑھتے بڑھتے بھی بفضلہ تعالیٰ آج کراچی، رحیم یار خان اور  ملک کے مختلف علاقوں کے علاوہ حجاز و افغانستان میں بھی پہنچ چکا ہے اور امت محمدیہ تعلق مع اللہ ،تزکیہ نفس کی نعمت سے سیراب ہو رہی ہے۔

 مساجد و مکاتب:

 حضرت قدس سرہ  نے لاہور ،کشمیر، رحیم یار خان سمیت کئی مقامات کے باقاعدہ ا سفار فرما کر وہاں مساجد و مکاتب قرآنیہ قائم فرمائے ۔ان خدمات کا آغاز ست گرہ مسجد انارکلی لاہور سے ہوا تھا بعد ازاں” جامع مسجد  احسان ، چوبرجی لاہور "کی زمین کی قیمت ادا کر کے اس کو اپنی دینی خدمات کا مرکز قرار دیا۔

 مدارس اسلامیہ:

 شوال ۱۴۲۱ھ  2001 ءمیں "جامعہ احسان القران والعلوم النبویہ لاہور” کا درجہ اولی سے باقاعدہ آغاز فرمایا ۔دو طالب علموں سے شروع ہونے والا یہ ادارہ بحمد اللہ  ان کے سامنے ترقی کرتے دورہ حدیث تک پہنچا ۔اب الحمدللہ یہاں دورہ حدیث شریف سمیت تخصص فی الافتاء و علوم الحدیث  کی تعلیم جاری و ساری ہے۔  ہمہ جہت دینی و علمی خدمات  پر محیط  یہ جامعہ ان کے لیے صدقہ جاریہ، فیضان نبوت کا عظیم مرکز اور روشن مینارہ ہے۔

 اشاعت درود شریف:

 حضرت قدس سرہ  امت میں کثرت سے درود شریف پڑھنے کے عمل کے احیا اور اس کی اشاعت کے لیے بہت فکر مند رہتے تھے۔ انہوں نے اسے اپنی زندگی کا عظیم مقصد اور مشن بنا لیا تھا۔ جہاں تک ممکن ہو سکا شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے "مجالس  ذکر و درود شریف "سینکڑوں جگہ شروع کروائیں۔” مرکز جامع مسجد احسان” میں مجالس درود شریف باقاعدگی سے منعقد کرواتے تھے یہی وجہ ہے کہ آج بھی پورے علاقے میں درود شریف کی برکات واضح محسوس ہوتی ہیں۔

 تحریری، تالیفی خدمات:

 حضرت جی رحمہ اللہ کو تحریرکا بہت اعلی ذوق تھا۔ ان کی تحریر مختصر ، مؤثر  اور جامع ہوتی تھی۔ ان کی مرتب و تالیف کی  ہوئی کتابوں میں” ٹی وی کی تباہ کاریاں” "مرزا قادیانی کے عقائد و کردار”” ذکر مبارک ﷺ” وغیرہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ اصلاحی مضامین پر مشتمل متعدد پمفلٹ  لکھ کر  شائع کروائے "حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی تالیفات پر عنوانات کا عظیم کام فرمایا اور جدید کتابت کے ساتھ زینت بخشی۔ جو فی الحال تشنہ طباعت  ہیں ۔مریدین متوسلین کے سینکڑوں خطوط کے جوابات  لکھوائے جو گنجینہ علم و عرفاں اور خزینہ معرفت ہیں۔

 لقائے محبوب/ وصال مبارک :

 برکۃ العصر قطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمہ اللہ کے جلیل القدر خلیفہ ،مؤسس و سرپرست اعلی ،بانی و صدر اول جامعہ احسان القران والعلوم النبویہ” ہمت مرداں مدد خدا "کا عملی نمونہ پیکر عزم و عظیمت، اپنی ذات میں ایک انجمن ،گوںنہ گوں اوصاف اور کمال و جمال کا مرقع زرین، ہزاروں سالکینِ طریقت کے عظیم شیخ و مرشد حضرت الحاج حافظ محمد صغیر احمد رحمہ اللہ ۱۶ شوال المکرم۱۴۴۱ ھ آٹھ جون 2020 ءبروز پیر بوقت نماز ظہر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس یوم لقاء میں بھی اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے شیخ کا طبعا اتباع  عطاء فرمایا ۔

اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ بوجہہ الکریم بجاہ النبی الامین الکریم علیہ الصلاۃ والتسلیم

مردِراہِ حق کےخودنوِشت حالات

سائل:حضرت مولانامحمدیوسف متالاصاحب رحمہ اللہ خلیفہ ومجازحضرت شیخ مولانامحمدزکریاکاندھلویؒ

مُجِیب:حضرت الحاج حافظ صغیراحمدصاحب رحمہ اللہ خلیفہ ومجازحضرت شیخ مولانامحمدزکریاکاندھلویؒ

سوال(۱):مکمل اسم گرامی،پتہ،فون نمبر

جواب(۱):نام:صغیراحمد،مدینہ اسٹیشنری مارٹ178/انارکلی لاہور۔

سوال(۲):آپ کی تاریخ پیدائش،بچپن کی تعلیم وتربیت،اعلیٰ دینی تعلیم،تعلیم سے فراغ، نکاح،اولاد،دینی خدمت کاآغاز،موجودہ مشغلہ،اب تک کی آپ کی زندگی کے خصوصی واہم احوال مختصرطورپرتحریرفرمادیں۔

جواب(۲):تاریخِ پیدائش یکم اپریل۱۹۳۶؁ء مقام دہلی،بچپن میں قرآن پاک حفظ کیا۔تقسیمِ ہند کے بعدلاہورمیں قیام پذیرہوئے اورچشتیہ ہائی اسکول سے دسویں جماعت کاامتحان دیا۔ اسکول کی تعلیم کے دوران ہی ادیب عا لِم کاامتحان پاس کیا۔دسویں کے بعدپنجابی فاضل کا امتحان دیا،اِس موقع پربابافریدالدین شکرگنج ؒکے کلام سے طبیعت نے بے حداثر لیا۔ بعدازاں کامرس کی تعلیم کے لیے کالج میں داخلہ لیا،مگرتکمیل سے قبل ہی دوکان پرکل وقتی طورپرآناپڑااوراُس وقت سے اب تک دوکان پرہی ہوں۔اِس طرح اعلیٰ دینی ودنیاوی تعلیم توکجاادنیٰ تعلیم بھی نہیں۔

            مئی۱۹۶۰ ؁ء میں نکاح ورخصتی ہوئی،الحمدللہ بفضلہ تعالیٰ ایک بچہ حافظ مولوی انیس احمدسلَّمہ اللہ تعالیٰ نے موقوف علیہ تک راے ونڈکے مدرسے میں تعلیم حاصل کی اور۱۴۰۳  ؁ھ میں مدرسہ عربیہ مظاہرعلوم سہارن پورہنددورۂ حدیث کے لیے داخلہ لیااور ۱۴۰۴ء میں فراغت پائی۔دورۂ حدیث شریف کے بارے میں حضرت اقدس مرشدی وسندی نوَّراللہ مرقدہٗ نے اپنی حیاتِ طیِّبہ ہی میں طے فرمادیاتھا۔

            ایک بچی مولوی آفتاب احمدسلَّمہ اللہ تعالیٰ کے گھرمیں ہے۔عزیزی موصوف نے موقوف علیہ تک کی تعلیم راے ونڈ کے مدرسہ میں حاصل کی اوردورۂ حدیث شریف کے لیے ۱۳۹۹؁ھ جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں داخلہ لیااور۱۴۰۰   ؁ھ میں فراغت حاصل کی۔

            اب بفضلہ تعالیٰ تبلیغ کے کام میں کل وقتی مشغول ہیں۔اِس بات کابے حدرنج وقلق ہے کہ ابھی تک عزیزی موصوف کوکسی بھی درجے میں درس وتدریس میں مشغول نہیں کیا گیا۔ایک بچہ عزیزحافظ خلیل احمدسلّمہ اللہ تعالیٰ تجارتی تعلیم (کامرس)میں مشغول ہے۔ اِن کے بعدوالے حفظِ قرآن سے فارغ ہوکرابتدائی اسکول کی تعلیم میں مشغول ہیں،جوکہ انشاء اللہ العزیزاِس کے بعددینی تعلیم میں بھی مشغول ہوں گے۔

سوال(۳):آپ کے علاقے کی مختصردینی صورتِ حال

جواب(۳):لاہورشہرمعروف جگہ ہے،اُس کی دینی ودنیاوی صورتِ حال عام ہے۔

سوال(۴):آپ نے حضرتؒ کو کس عمرسے جانا؟سب سے پہلے حضرتؒ کی زیارت کہاں اورکیسے ہوئی،مفصَّل واقعے کی صورت میں تحریرفرمائیں۔

سوال(۵):حضرتؒ سے بیعت واصلاحی تعلُّق کی کیاشکل ہوئی؟کیاآپ حضرت شیخ رحمہ اللہ سے بیعت ہونے سے قبل کسی سے وابستہ تھے یابراہِ راست حضرت ہی سے ابتداء ً بیعت ہوئے؟بہرصورت حضرتؒ سے تعلُّق جوڑنے کاواقعہ مفصَّلاً تحریرفرمادیں۔

سوال(۶):مختلف مشائخ میں سے آپ نے حضرت شیخ رحمہ اللہ کوکیسے اورکیوں منتخب کیااور اُن کے دامنِ تربیت سے وابستگی کے لیے کیااسباب اورمحرَّکات پیش آئے؟

سوال(۷):بیعت بالمشافہ ہوئے یاخط سے؟پہلی صورت میں بیعت کاقصّہ یادہواوربیعت کے وقت حضرت نے کوئی خصوصی نصیحت فرمائی ہوتوتحریرفرمادیں اورخط سے بیعت ہونے کی صورت میں خط کی فوٹوکاپی یانقل آسانی سے بھیج سکیں توضروربھیج دیں۔

جواب(۴،۵،۶،۷):حضرت اقدس شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہٗ وبرَّداللہ مضجعہٗ کانام نامی اسمِ گرامی  ۶۴ ؁ء میں پہلی بارلاہورتشریف آوری پرسناتھا۔حضرت اقدس والدصاحب رحمہ اللہ اکثر حاضری کے لیے تشریف لے جایاکرتے تھے اوربندہ دوکان پرکاروبارکی مشغولی کی وجہ سے زیارت سے محروم رہا۔پہلی بار۱۹۶۷؁ء میں جب کہ بندہ اپنی اہلیہ کے ہم راہ حج کے لیے گیاہواتھا،دورانِ طواف حضرت کی زیارت سے مشرَّف ہوااوربعدحج مدینہ منوَّرہ علیٰ صاحبہاالف الف صلوات اللہ وسلامہ میں اللہ جل شانہ نے محض اپنے لطف وکرم سے بیعت سے مشرَّف فرمایااوریہ پہلی ہی بیعت تھی۔

            بیعت سے قبل حضرت اقدس رحمہ اللہ نے فرمایاکہ میرے پیارے میرے پیرتوقبر میں لٹکے ہوئے ہیں،تمھارے پاکستان میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ وحضرت مدنی رحمہ اللہ کے اجل خلفاموجودہیں،مجھ سے کیافائدہ ہوگا۔بندہ خاموش رہا۔ حضرت اقدس رحمۃاللہ علیہ نے اپنی چارپائی پر بٹھاکربیعت فرمایا،یہ واقعہ بعدفجرکاہے۔

            بیعت سے فراغت کے چندمنٹ بعدہی زوردارآوازیں آنے لگیں کہ اٹھوبھائی، جاؤبھائی جاؤ۔بندہ بیٹھارہا،اِس پرحضرت نے فرمایاکہ کچھ کہو تواِس پربندہ نے عرض کیاکہ حضرت ہندوستان بلالیں،توفرمایابھائی بڑی رکاوٹیں ہیں۔عرض کیاکہ حضرت دعا فرمادیں۔ فرمایا،کہ ضرورانشاء اللہ تعالیٰ،پھرمصافحہ کیااوررخصت ہوگیا۔

            دوسرے روزبعدِ ظہرکچھ پھل لے کرحاضری ہوئی،کھاناکُھلاہواتھا۔کسی نے دیکھ کربُلایااورحضرت کے دریافت فرمانے پربتایاکہ کل جوپاکستانی بیعت ہواتھاوہ آیاہے۔حضرت نے اپنے قریب بٹھایا،بندہ نے پھل پیش کیے،حضرت نے کھانے کے لیے فرمایا،بندہ نے عذر کیاکہ اہلیہ کے لیے کھانالے کرہسپتال جاناہے۔حضرت نے فرمایا کہ پہلے خودکھالے،پھرجاکر کھلائیو،بس حجازِ مقدَّس میں اتنی ہی حاضری ہوئی۔

            پاکستان حج سے واپسی کے بعدحضرت علیہ الرحمہ سے مکاتبت کاسلسلہ شروع ہوا،جو۸۰ ؁ء تک جاری رہا۔ان میں اہم مکتوبات بھی ہیں جوکہ انشاء اللہ پھرکسی وقت پیش کردیے جائیں گے۔

             ۶۸ ؁ء میں پہلی باررمضان المبارک کے فوراًبعددس یوم کے لیے سہارن پور حاضری ہوئی۔اِس حاضری کے دوسرے ہی دن مخدومی حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب زادمجدہٗ کے واسطے سے ذکرکی اجازت چاہی توحضرت نے اُنھی سے بتانے کے لیے فرمایا۔

            اور۶۴  ء؁میں پاکستان حضرت کی پہلی بارآمدپرجب یہ سناکہ شیخ الحدیث صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں،اُسی وقت سے حضرتؒ کی زیارت کااشتیاق اور ایک انجانی سی چاہت قلب میں محسوس کرتاتھا۔گووالدصاحب رحمہ اللہ کودادی صا حبہ نے بندہ کے داداکے انتقال کے بعدجب کہ اُن کی عمرشریف ۵/سال ہی تھی،جس محلّے میں قیام تھا،اُس محلّے میں ایک بزرگ جوکہ میاں صاحب کے لقب سے معروف تھے،اُن سے بیعت کروایاتھا۔

            ہمارے گھرانے پریہ اللہ کابہت ہی فضل واحسان تھااوردادی صاحبہ کی فہم وبصیرت تھی اوراِس کے نتائج اونچے ظاہرہوئے۔اِس کے باوجودہمارے گھرانے میں کیا، بلکہ پورے خاندان وبرادری میں اصلاح وتزکیہ توکُجا،بیعت ہونے کابھی رواج نہ تھا۔ البتہ علما وصلحاومشائخ سے کسی نہ کسی درجے میں وابستگی ضرورہواکرتی تھی۔تقسیمِ ہندکے بعدپاکستان آنے کے بعداِس رواج میں بھی بے حدکمی واقع ہوگئی۔

            ہمارے اپنے گھرمیں یہ ایک عجیب بات ہے کہ بڑے سے پوچھے بغیرکوئی دینی ودنیاوی کام نہیں کرتے۔اِس کے پیشِ نظربندہ مدینہ منوَّرہ سے والدصاحب رحمہ اللہ سے باربارخط کے ذریعے دریافت کرتارہااورتحریرکرتارہاکہ میری طبیعت حضرت شیخ رحمہ اللہ سے بیعت ہونے کوہے۔چوں کہ اُس وقت ڈاک کانظام اتناصحیح نہ تھا؛اِس لیے اُن کے جواب آنے میں قدرے تاخیرہوگئی۔جب اُن کاخط مجھے ملا،اُس میں یہ تحریر تھاکہ میں تمھارے ہرخط کاجواب دیتارہااوربھلایہ بات بھی کوئی پوچھنے کی ہے اورفوراً بیعت ہوجاؤ،پھریہ موقع زندگی میں ہاتھ نہ آئے گا۔

            جواب ملنے سے قبل اورطبیعت میں ایک گونہ پریشانی کے سبب بندہ نے مولاناعبدالرحمان صاحب(صاحب زادہ مفتی محمدحسن رحمہ اللہ)نائب مہتمم مدرسہ جامعہ اشرفیہ جوکہ اپنی والدہ کے ہم راہ قیامِ مدینہ منوَّرہ میں ساتھ تھے،سے سوال کیاکہ اگر کوئی بیعت ہوناچاہے توآپ کی کیاراے ہے،کس سے ہو؟موصوف نے اپنے والدصاحب کاقول نقل کیاکہ اگرکوئی اصلاح وتزکیہ کراناچاہے وہ فلاں فلاں بزرگ سے بیعت ہوجائے۔بندہ نے فوراًدوسراسوال کیاکہ سُناہے کہ کوئی شیخ الحدیث ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے ہیں۔اُن کے بارے میں آپ کی کیاراے ہے؟موصوف نے فرمایاکہ وہ توایسے ہیں کہ اگراُن کی ایک نگاہ پڑجائے تومیلوں کاسفرطے ہوجائے۔یہ جواب سُن کربندہ کے دل میں یہ خیال آیاکہ مجھے توایسے ہی شیخ سے بیعت ہوناچاہیے کہ توکرے گاتوکچھ ہے ہی نہیں۔

سوال(۸):بیعت کے بعداصلاح وتربیت کے سلسلے میں حضرتؒسے جوخط وکتابت ہوئی ہواُن مکاتیب میں سے جن مکاتیب کی اشاعت سالکانِ طریقت وتصوَّف کے لیے مفیدہو،وہ مکاتیب یااُن کے اقتباسات نقل کرکے ارسال فرمادیں۔

جواب(۸):؟

سوال(۹)حضرت رحمہ اللہ کے یہاں مشہورتھاکہ جب حضرت کی طرف سے ڈانٹ پڑتی تھی تووہ خصوصی توجُّہات کاپیش خیمہ ہوتی تھی۔اِس طرح کے واقعات آپ کے ساتھ پیش آئے ہوں یاآپ کے سامنے اورکسی کے ساتھ پیش آئے ہوں تواِسے تحریر فرمادیں۔

جواب(۹):سرِدست کوئی ایساواقعہ ذہن میں نہیں آرہا۔

سوال(۱۰):حضرت اقدس قُدِّس سرہٗ کی طرف سے خصوصی خدَّام ومتعلِّقین پرروحانی عطایا کے ساتھ مادی ومالی ہدایاکی بارش رہاکرتی تھی۔ اِس طرح کی خصوصی شفقتیں آپ کے ساتھ رہی ہوں تواُسے بھی تحریرفرمادیں۔

جواب(۱۰):سرِدست کوئی ایساواقعہ ذہن میں نہیں آرہاہے جوکہ تحریرکیاجاسکے۔

سوال(۱۱):حضرت اقدس رحمہ اللہ کااندازِ تربیت ہرشخص کے مزاج کے اعتبارسے ہر ایک سے الگ الگ رہا۔آپ کے ساتھ تربیت کاتعلُّق کس نوعیت کارہا؟نیزحضرت سے تعلُّق قائم کرنے کے بعدمعمولات میں زیادتی وترقّی کیسے ہوئی؟آپ کے معمولات کے سلسلے میں حضرت کی طرف سے جوہدایات زبانی یابذریعہ خطوط آپ کوملی ہوں،اُن سب احوال کوبسط کے ساتھ تحریرفرمادیں۔بالخصوص آپ نے حضرتؒ سے امراضِ قلب کے علاج کے متعلِّق دریافت کیاہواورحضرتؒ نے کوئی علاج تجویز فرمایاہو، اُسے بھی ضرورنقل فرماکرارسال فرمادیں۔

جواب(۱۱):جہاں تک تربیت کاتعلُّق ہے،بندہ کواِس کاشعور نہ پہلے تھااورنہ اب ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت کے اندازِتربیت کواپنے جہل کی وجہ سے کبھی بھی نہ سمجھ سکا۔البتہ معمولات کے پرچے کے مطابق ہرہرنمبرکچھ کلیتاًپوراکرنے کی پہلے بھی سعی کرتاتھااوراب بھی کرتا ہوں،مگراِس کاملال ہے اوراِس کے اعتراف میں تاَمُّل نہیں، اِس کوشش میں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ ہرحاضری سے قبل ایک خوف طاری ہواکرتاتھااوربہت ہی توبہ واستغفارکے ساتھ حاضرہوا کرتاتھا،اورہرواپسی پریہ احساس ہواکرتاتھاکہ اب تک کی عمرتواِسی طرح ضائع ہوئی ہے۔

            ۷۹  ؁ء کے ماہِ مبارک کے لیے سہارن پورحاضری پرمخدومی الحاج صوفی محمداقبال صاحب مدنی دامت برکاتہم نے ماہِ مبارک کے دوران فرمایاکہ تونے اپنے بارے میں حضرت کو کبھی کسی خاص بات سے مطَّلع فرمایا[؟]،توبندہ نے عرض کیاکہ نہیں۔ پھر فرمایاکہ لکھ کرلے جا۔ بندہ نے عرض کیاکہ کوئی خاص بات ہے ہی نہیں جولکھ کرلے جاؤں۔ فرمایاکہ سوچو،کچھ توضرورلکھ کرلے جاؤ۔کافی سوچتارہا،دوسرے روزلکھ کرلے گیا،جواب تحریرفرمایا،اُس کی نقل یہ ہے:

            ”اللہ کاشکرہے۔تمہارے حالات سے بہت ہی مسرَّت ہوئی۔اللّٰہم زدفزد۔ اب آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں،مگراستقامت ضروری ہے،اور استقامت سے مراد یہ ہے کہ جوحالات چل رہے ہیں اُن پرجماؤاور استقلال رہے۔جب عُجب پیداہوے، تویہ سوچ لیاکرکہ مجھ کومیری حالت معلوم ہے۔یہ اللہ کافضل ہے،اُس نے ستَّاری فرمارکھی ہے“۔

سوال(۱۲):حضرت کی طرف سے آپ کوخلافت کب اورکہاں عطاہوئی؟اوراِس موقع پرکوئی چیزحضرت نے بطوریادگارمرحمت فرمائی ہویاکوئی خاص نصیحت فرمائی ہوتواُس کوذراتفصیل سے تحریرفرمادیں اوراگرحضرت رحمہ اللہ کی طرف سے خلافت تحریری ملی ہوتواجازت نامہ کی نقل ارسال فرمادیں۔

جواب(۱۲):اُس وقت کوئی چیزبطوریادگارعطافرمانے کامعمول ترک ہوچکاتھااور ۲۶/ ویں شب رمضان المبارک ۱۴۰۰   ؁ھ مطابق۱۹/جولائی۸۰    ؁ء شبِ ہفتہ کوبعدنمازِعشاو تراویح کے اجازت عطافرمائی اوراجازت مرحمت فرمانے سے قبل یعنی جمعہ کے دن صبح کے وقت نسبت واجازت والارسالہ محترم جناب بھائی ابوالحسن صاحب کی معرفت ارسال فرمایاکہ اِس کوپڑھ لو۔

سوال(۱۳):حضرت اقدسؒ اپنے خلفاومجازین کے بارے میں اِس کے متمنی رہتے تھے کہ وہ حضرت کے یہاں آنے کے بجائے اپنی جگہ جم کربیٹھیں اورکام میں لگیں،اِس سلسلے میں آپ کوبھی خصوصی ہدایت فرمائی ہوتواُسے بھی تحریرفرماویں۔

جواب(۱۳):اِس کاکوئی موقع نہیں ملا۔

سوال(۱۴):حضرت رحمہ اللہ کوتصنیفی وتالیفی ذوق بہت زیادہ تھا،اس سلسلے میں کیاحضرت نے آپ کوکسی کتاب کی تالیف کااپنی طرف سے حکم فرمایا،یاحضرت نے آپ کے مشورہ طلب کرنے پرکسی تصنیف کی اجازت فرمائی ہویامسرَّت کااظہارفرمایاہو تواُس کی تفصیل تحریر فرمائیں۔

جواب(۱۴):بندہ تصنیف وتالیف کی لائن کاتوہے نہیں،البتہ اِس کابے حداشتیاق رہتاتھاکہ حضرت کے رسالے طبع ہونے میں بندہ سبب بن جائے اوررسالہ صِقالۃالقلوب وغیرہ کی طباعت سے الحمدللہ ثم الحمدللہ یہ چیزمقدَّرہوئی اورحضرت نے ایک گرامی نامہ میں تحریرفرمایا کہ:

            ”صوفی جی کی جوکتاب آپ چھپوارہے ہیں،اُس کااحسان مجھ پرہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیرعطافرمائیں،فقط“۔

            اِس کے علاوہ ایک گرامی نامہ جوکہ رسالہ ذکرواعتکاف کی اہمیت میں طبع ہوچکاہے، اُس سے یقین ہواکہ حضرت والابندہ کی اِس سعی سے خوش ہیں،اُس گرامی نامے کی نقل ذیل ہے:]؟[

سوال(۱۵):کبھی مخصوص مواقع پرحضرتؒ اپنے خصوصی احباب اورمتوسِّلین کواہلِ حق کی جماعتوں اورجمعیتوں کے ساتھ مل کراہلِ باطل کی تحریکات وسازشوں کے خلاف کام کرنے کی طرف متوجِّہ فرمایاکرتے تھے،اِس طرح کی کوئی ہدایت تحریریازبانی آپ کوملی ہوتوضرور تحریرفرمائیں۔

جواب(۱۵):اِس کابھی کوئی موقع نہیں آیا۔

سوال(۱۶):حضرتؓ کی خواہش اورتمنَّاتھی کہ حضرت کے خلفاتبلیغی کام میں تعاون فرمائیں اورجگہ جگہ مدارسِ دینیہ ومکاتیبِ قرآنیہ قائم کریں،اِس سلسلے میں کبھی آپ کوہدایت فرمائی ہو تواُسے بھی تحریرفرمائیں۔

جواب(۱۶):گومستقلاًحضرت  رحمۃ اللہ علیہ نے اِس ذیل میں کوئی ہدایت توتحریرنہ فرمائی،البتہ حضرت والاکے علم میں یہ بات خوب اچھی طرح تھی کہ بندہ تبلیغی کام میں خوب جڑتاہے۔

سوال(۱۷):مدارسِ عربیہ کے اسلاف کے نقشِ قدم پرچلنے اورصحیح نہج پرطلبہ کی تربیت کرنے اور وقف کے مال میں امانت داری برتنے کی حضرت کے یہاں بہت تاکیدرہاکرتی تھی،اگرآپ کوکچھ یادہوتوضرورلکھیں۔

جواب(۱۷):یہ لائن بھی بندہ سے متعلِّق نہیں ہے۔

سوال(۱۸):حضرت کی مختلف ادائیں بحالتِ عبادت ودرس وتدریس وبَردسترخوان وبرمسندِ مشیخت ودر مجلسِ شب بعدعشانیزاکابرکے قصے وتفریحی فقرے وقصے واشعاروغیرہ امورمیں سے جن چیزوں کوآپ کے حافظہ اورقلم نے محفوظ رکھاہواُسے وسعتِ ظرفی کے ساتھ بسط سے لکھیں؛تاکہ دیگرعُشَّاق ومحبِّین بھی اِس سے محفوظ ومستفیدہوں۔

جواب(۱۸):پہلی باردس یوم کی حاضری سہارن پورسے واپسی سے ایک یوم قبل حضرت نوَّراللہ مرقدہٗ نے دریافت فرمایاکہ تیراشام کوکھانے کامعمول ہے یانہیں؟بندہ نے عرض کیاکہ جی ہے۔حضرت نے فرمایاکہ میرامعمول توایک عرصے سے ہے نہیں۔کل تیری خاطرتیرے ساتھ کھاؤں گا۔مغرب کی نمازسے فارغ ہوکراندرآجانا۔اُس زمانے میں کچے گھرمیں لالٹین جلتی تھی۔بندہ کے پہنچنے کے بعدکھانامنگوایا۔دسترخوان پرایک چھوٹاڈبہ بھی آیا،جس میں دیسی گھی تھا۔حضرت نے فرمایایہ بھی لگاتاجااورکھاناآنے کے بعدزنجیرلگوادی اوربندہ کواپنے ساتھ بیٹھنے کاحکم فرمایااورکھانے کاحکم فرمایا۔

            بندہ پراُسی وقت ایک عجیب کیفیت جس کومحسوس توآج بھی کرتاہوں؛لیکن بیان کرنے سے آج بھی قاصرہوں،بالکل بے خودتھا۔معاًخیال

 آیاکہ حضرت بھی تناول فرما رہے ہیں یانہیں۔دیکھاکہ حضرت بھی بُھنی ہوئی کھچڑی جس میں مرغی پکی ہوئی تھی،مرغی کی بوٹیاں چُن چُن کربندہ کے آگے ڈال رہے ہیں۔بس پھربندہ بھی بوٹیاں چُن چُن کر اپنے خیال میں اِس طرح حضرت کے آگے ڈالتارہاکہ حضرت کومعلوم نہ ہو۔حضرت نے فرمایاکہ ساری مرغی مجھے ہی کھلادے گا۔

            ذکرسیکھنے کے بعدجمعہ کے روزجوکہ بعدعصرمسجدمیں ہواکرتاتھا،بندہ بالکل حضرت کے عقب میں بیٹھاہواتھا۔دورانِ ذکرایساشدیدگریہ طاری ہواکہ پسلیاں ٹوٹنے لگیں اوربے اختیارمنہ سے ہائے ہائے نکلتارہا۔روانگی کے وقت جب حضرت کی خدمت میں حاضرہواتو حضرت نے یہ شعرپڑھا:

نہیں بھولتااُن کی رخصت کاوقت                    وہ روروکرملنابَلاہوگیا

            [حضرت مولانامحمدیوسف متالاؒ]کی طرف سے اضافی نوٹ:یہ چند اموربطورنمونہ ازخروارے ہم نے تحریرکیے ہیں۔اِن کے علاوہ مزیدجوکچھ آپ تحریرفرماناچاہیں،ضرورلکھیں۔ بالخصوص حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے دیگرخلفاکے جو حالات واوصافِ عالیہ آپ کے علم میں ہوں تواُسے بھی ضرورلکھیں۔

(۱)بندہ اِس بات کوبہت ہی شدَّت سے محسوس کرتاتھاکہ جب بھی کسی سے تخلیہ ہوتاتھایا عمومی مجلس ہوتی حضرت والالُنگی کواِس طرح ٹھیک کراتے کہ اکثرقدم مبارک بھی نظرنہ آتے۔ایک مرتبہ اعتکاف کے دوران مغرب کے بعدکی مجلس میں بندہ جب کہ بالکل شروع میں بیٹھاہواتھا،بندہ کی نگاہ پڑی کہ آج حضرت کے قدم اِس قدرباہرہیں کہ پنڈلی کا بھی کچھ حصہ نظرآرہاہے۔غیرارادی طورپراُٹھااورلُنگی درست کرنے لگا۔حضرتؒ نے فرمایاکہ:”جزاک اللہ“۔

(۲)مخدومی حاجی متین احمدصاحب شملہ پہاڑی والوں کے یہاں تشریف لے گئے۔اِس موقع پراُن کی اہلیہ نے کچھ گفتگوکرنی تھی۔حضرت والانے اُن کے صاحب زادے تسنیم احمدصاحب کوبلوایا،پھرخدَّام کے ہم راہ اُن کے کمرے میں تشریف لے گئے جس میں اُن کی اہلیہ تھیں۔جب گفتگوختم ہوگئی توبندہ نے عرض کیاکہ حضرت باہرتشریف لے چلیں، حضرت نے فرمایاکہ ہاں بھائی اٹھاؤ۔اُٹھانے سے قبل بندہ نے حضرت کی لُنگی کوحضرت کے قدموں کے نیچے دبادیا۔اِس پرحضرت نے فرمایاکہ ہاں بھئی اوراچھی طرح ٹھیک صحیح کردو۔

(۳)اسی طرح ایک مرتبہ فیصل آبادتشریف آوری پرماہ ِ مبارک کے اعتکاف کے دوران ایک روزخداجانے بندہ پرنیندکااِس قدرکیوں غلبہ تھا؟باوجوداِس کے کہ اپنی ٹانگوں میں چٹکیاں بھرتاتھا،نیندمیں بجائے کمی شدَّت ہی ہوتی گئی اورمجلس کاساراوقت اِسی میں گذرگیا۔خلافِ معمول دس منٹ قبل حضرت نے اپنے خادم الحاج ابوالحسن صدّیقی صاحب سے فرمایاکہ بس بھائی پردہ ڈالو،آج تودوستوں کونیند ہی نہیں چھوڑرہی ہے اوریہ فرماتے ہی بندہ کی نیندہرن ہوگئی۔

(۴)ایک مرتبہ ڈُھڈیاں شریف کے قیام میں حضرت مزارشریف پرتشریف لے گئے۔ بندہ بھی معمول کے مطابق دیگرخدَّام کے ہم راہ حضرت کے بالکل عقب میں بیٹھ گیا۔چند منٹ بعدقاضی عبدالقادرصاحب تشریف لائے اوروہ بھی دیگرخدَّام کے ہم راہ بیٹھ گئے، مگر جلدی اُٹھ کرتشریف لے جاتے ہوئے بندہ کے مونڈھے کوہلاکراشارہ کیاکہ اٹھو۔بندہ نے اِس کاکوئی اثرنہ لیااوربندہ اِس اٹھانے کی و جہ نہ سمجھتے ہوئے بیٹھارہا۔

            چندمنٹ کے بعدقاضی صاحب کاپیغام بَرآیااوراُس نے زورسے ہلاکر قاضی صاحب کاپیغام نقل کیاکہ بلارہے ہیں۔بندہ نے اشارہ سے جواباًکہہ دیاکہ ابھی آتاہوں۔۱۰یا۱۵منٹ بعدپیغام برپھرآیااوراِس مرتبہ زیادہ شدَّت سے ہلاکرکہاکہ قاضی صاحب بلارہے ہیں۔ایک مرتبہ پھربندہ نے اشارہ سے کہہ دیاکہ بس ابھی آتاہوں؛لیکن بس اِس مرتبہ طبیعت میں انتشارپیداہوگیااوربارباریہ خیال آتارہاکہ بات سُن آ،کہیں حضرت کے یہاں شکایت نہ ہوجائے۔

            اِس شش وپنج میں بندہ اُٹھااورقاضی صاحب کی خدمت میں حاضرہوااور دریافت کیا۔موصوف نے فرمایاکہ بس اب کچھ نہیں ہے۔بندہ اُلٹے پیروں مزارشریف پرآیاتودیکھاکہ خدَّام حضرت کواُٹھارہے ہیں۔بندہ بھی خدَّام کے ہم راہ حضرت والاکے کمرے میں پہنچا۔ حضرت نے کمرے میں داخل ہوتے ہی فرمایاکہ ِلٹادوبھائی،آج تو دوستوں کادل ہی نہ لگا۔اِس پربندہ کوجورنج وافسوس ہوااُس کا آج تک احساس ہے۔فقط

(۵)ایک مرتبہ جب کہ پاکستان میں بھٹوحکومت کاعروج تھااوردین والوں پر ہرنوع کی سختی شروع تھی۔اِسی دوران حضرت والاکی تشریف آوری پاکستان ہوئی اوربہت سے قانونی جوڑتوڑکے بعداورتمام بااثراحباب کے اثرکے استعمال کے بعد۷۲/گھنٹے صرف قیام کی منظوری ملی۔مگر۷۲/گھنٹے پورے ہونے سے قبل ہی اِس قیام کومنسوخ کردیا۔ چوں کہ آئندہ کے سفرکاجہازاورسیٹ ۷۲/گھنٹے کے بعدہی تھی اور۷۲/گھنٹے پورے ہونے میں ایک شب باقی تھی۔

            حکومتِ وقت کے بااختیارافسران کایہ مطالبہ تھاکہ یہ ایک شب مکّی مسجدمیں کسی طرح بھی نہیں گذاری جاسکتی،البتہ اتنی رعایت ہوسکتی ہے کہ یہ شب ہوٹل میں گذاردیں۔ خدَّام کی حالت توقابلِ دیدتھی،مگرحضرت والاپرظاہرکے اعتبارسے اِس کاکوئی اثرہی نہ تھا۔جب ہوٹل میں شب کے قیام کاقطعی فیصلہ ہوگیاتوبندہ کی طبیعت ایک بات کے خیال سے شدیدپریشان ہوگئی۔وہ یہ کہ حضرت کیاہوٹل کابستراستعمال فرمائیں گے اورحضرت کے ساتھ جن خدَّام کاقیام طے ہواتھا،اُن میں بندہ شامل نہ تھا۔

            بندہ اضطراری کیفیت سے اللہ سے دعاکرتارہا،یااللہ!ایساتونہ ہوکہ حضرت ہوٹل کابستراستعمال فرمائیں تُوہی کوئی صورت پیدافرمادے۔اِسی اُلجھن وپریشانی میں بندہ نے اپنے بسترسے رضائی اورچادرنکالی اوراُس گاڑی میں جس میں ہوٹل تک جاناتھا، خاموشی سے رکھ دی۔البتہ ہوٹل تک ساتھ جانے میں بندہ کاجانابھی منتظم حضرات نے قبول فرمالیاتھا۔ حضرت والاکوہوٹل کے کمرے میں پہنچایاگیااور رَضائی وچادرکے رکھنے کاعلم بندہ کے سواکسی کونہ تھا۔کمرے میں داخل ہوتے ہی حضرت نے فرمایاکہ لاؤبھائی وہ چادراور رضائی جوگھرکی ہے۔ سب خدَّام حیران تھے کہ حضرت نے کیافرمایاہے۔بندہ بھاگاہواگیا اوردونوں چیزیں لے آیا۔حضرت والاکی برکت سے اِس شب میں حضرت کے ساتھ ہی ہوٹل میں قیام رہا۔

(۶)غالباً۶۹یا۷۰؁ ء کی بات ہے کہ حضرت کی تشریف آوری لاہورہوئی اوربلال پارک میں قیام فرمایا۔ایک دوشب کے لیے بندہ کے والدصاحب رحمہ اللہ مع بندہ کے دیگربرادران کے حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے۔غالباًالحاج بھائی ابوالحسن صاحب نے حضرت سے والدصاحب کاتعارُف کراتے ہوئے عرض کیاکہ صغیرکے والد صاحب ہیں۔مصافحہ کے بعد والدصاحب رحمہ اللہ بیٹھ گئے،بندہ بھی ساتھ بیٹھ گیا۔

            حضرت نے فرمایاکہ بھائی صغیرہیں؟بندہ خاموش رہااِس خیال سے کہ سامنے بیٹھاہوں۔دوبارہ پھرفرمایا،بندہ پھرخاموش رہا،نہ کسی اورنے ہی

کچھ کہا۔حضرت والانے تیسری مرتبہ غصے میں اورخاصی بلندآوازسے فرمایااوروہ فرماناایساتھاجیسے بندہ پربجلی گرگئی۔ اِس بجلی گرنے کااحساس بھی آج تک خوب اِسی حالت میں ہے۔اِس تیسری مرتبہ کے فرمانے پربندہ نے بے ساختہ قدم مبارک پکڑلیے،ساراجسم کانپ رہاتھااوربہت ہی مشکل سے اتنالفظ نکلا”حضرت“۔

            بندہ کی اِس ناگفتہ بہ کیفیت کوحضرت نے مطلع فرماکراُس لمحے نہایت کریمانہ ومُشفقانہ اندازمیں فرمایاکہ میرے پیارے میری بینائی اب اتنی بھی نہیں کہ جتنی توسہارن پورچھوڑکرآیاتھا۔

(۷)۷۳ ؁ء ماہِ مبارک میں بندہ مع اپنی اہلیہ اورتین بچوں کے سمیت[؟کذا]حاضرتھا۔مکہ مکرَّمہ میں معمول اِس طرح تھاکہ بعدعصرکی مجلس غروب سے تقریباًنصف گھنٹہ قبل ختم ہوتی اور حضرت حرم شریف تشریف لے جاتے۔جس گاڑی میں حضرت تشریف لے جاتے،اُس گاڑی میں برف کاتھرماس بھی رکھ دیاجاتا۔برف فروش صولتیہ کے باہرہی بیٹھاکرتاتھا۔ ایک روزحسبِ معمول حضرت والاگاڑی میں بیٹھ چکے تھے،برف کاتھرماس برف سے بھرکرگاڑی میں رکھاجاچکاتھااورگاڑی اسٹارٹ ہوچکی تھی۔حضرت کی نگاہ مبارک ایک چھوٹے سے برف کے ٹکڑے پرپڑی جووزن کے اعتبارسے بمشکل ایک چھٹانک ہوگا۔حضرت نے فرمایاکہ ارے بھائی برف پڑی ہوئی ہے،یہ ضائع ہورہی ہے،لیکن اٹھائے کون؟کسی کی مِلک نہ تھی۔حضرت والاکااصرارکہ یہ ضائع ہورہی ہے۔برف والے کوبلاؤاوراُس کوکہوکہ اِس برف کوڈبے میں محفوظ کرلے۔

            چناں چہ خدَّام نے برف والے کوآوازدی وہ آیااوراُس کوبتایاکہ یہ ٹکڑاتمھارا ہے اِس کواُٹھاؤ،اُس نے بڑی ہی بے التفاتی سے کہاکہ پڑارہنے دوکوئی بات نہیں ہے۔ ایک صاحب نے اُس کوعربی میں سمجھایا،اُس نے برف کواٹھاکرپیٹی میں محفوظ کیاپھرگاڑی روانہ ہوئی۔

            ایک مرتبہ والدصاحب رحمہ اللہ کے تعلُّق والے نے والدصاحبؒ کی دعوت کی اوربندہ کواوربندہ کے مرحوم بھائی محمداحمدکوہم راہ لانے کے لیے اصرارکیا۔اُن صاحب کامکان مودودی صاحب کے مکان والی گلی کے ساتھ والی گلی میں تھا۔کھاناکھانے کاانتظام کھڑے ہوکر کھانے کاتھا۔

            جب ہم پہنچے توصاحبِ خانہ نے والدصاحب رحمہ اللہ کی رعایت سے ایک کمرے میں میزکرسی کاانتظام کیاہواتھا۔ہمارے پہنچنے پرصاحبِ خانہ ہم کواُس کمرے میں لے گئے۔ہم ابھی پہنچے ہی تھے کہ مودودی صاحب مع اپنے ایک ہم راہی کے آپہنچے۔ صاحبِ خانہ اُن کوبھی اُسی کمرے میں لے آئے۔والدصاحبؒ کی طبیعت میں مروَّت بے حدتھی،اُنھوں نے اُٹھ کرسلام کے بعدمصافحہ کیا،مگرہم دونوں بھائی بیٹھے رہے۔والد صاحب رحمہ اللہ کوہماراسلام نہ کرنااورنہ ملنابے حدناگوارہوا، اُس کے آثارچہرے پرخوب نمایاں تھے۔

            دورانِ کھانابالکل خاموشی رہی اورفراغ پربھی بالکل خاموشی رہی اورکوئی بات نہ کی۔گھرپہنچ کربندہ اپنی رہائش والے حصّے میں چلاگیا۔ والدصاحب نے محمداحمدکوبلایااور فرمایاکہ مجھے یہ بات بالکل ناپسندہے،اختلافِ پسندوناپسنداپنی جگہ ہے،مگرسلام کرلینے میں کیامضائقہ تھا؟محمداحمدمرحوم نے اُسی وقت آکرساری بات بندہ سے نقل کی۔بندہ نے جواباًکہاکہ میری طرف سے جاکرکہہ دوکہ میں نے اِس لیے سلام نہ کیاکہ دیکھنے والے یہ کہیں گے کہ شیخ الحدیث صاحب سے تعلُّق رکھنے والے جب اِس طرح ملتے ہیں توہم کوملنے میں کیامضائقہ اوراگرآپ کاحکم ہوتومیں ابھی جاکراُن کی جوتیاں صاف کرنے اور اُن سے معذرت کرنے کے لیے تیارہوں۔

            محمداحمدمرحوم نے یہ بات اُسی وقت جاکرنقل کردی،مگراِس پرنہ تووالدصاحب نے کوئی جواب مرحمت فرمایااورنہ ہی طبیعت کے تکدُّرمیں کمی ہوئی۔ والدصاحب رحمہ اللہ کی ناراضگی کی و جہ سے بندہ کی عجیب حالت تھی،نہ کھایاجاتاتھااورنہ نیندآتی تھی۔اُسی وقت حضرت والاکو عریضہ تحریرکیااوراُس میں مکمَّل تفصیل بھی تحریرکی اوریہ بھی درخواست کی کہ اگرچہ بندہ سے غلطی ہوگئی ہے توحضرت سے درخواست ہے کہ بندہ کے لیے استغفار فرمائیں اورتلافی کی کیاصورت ہوگی۔بصورتِ دیگردعافرمادیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ محض اپنے لطف وکرم سے والدصاحب کی ناراضگی کو رضامندی وخوش دلی میں مبدَّل فرمادیں؛ تاکہ یہ سیاہ کاردنیا وآخرت کی بربادی سے محفوظ رہے۔

            بندہ نے بہت سوں سے یہ بات سُنی تھی کہ ہم کسی سخت پریشانی کے وقت حضرت کی خدمت میں عریضہ ارسال کرتے ہیں تواُس کے پہنچنے سے قبل ہی اللہ پاک خلاصی نصیب فرمادیتے ہیں۔اِ س موقع پربھی بندہ کوخوب تجربہ ہوا،عریضہ ڈالے ہوئے ابھی تیسرا ہی دن تھاکہ والدصاحبؒ کاپیغام مرحوم بھائی لے کرآیاکہ صغیرسے کہوکہ مودودی صاحب کے بارے میں اپنے اکابرکی جوتحریرات گھرمیں اُس کے پاس ہوں تووہ،ورنہ بازارسے لاکرمجھے دیدے۔

            بس یہ سنتے ہی بندہ خوشی کے مارے گھنٹوں روتارہااوراُسی وقت ”عصرِحاضر میں دین کی تفہیم وتشریح“[مصنف:مولاناابوالحسن علی ندوی] لےکرحاضرہوا۔اب مجھے شدَّت سے حضرت کے گرامی نامے کاانتظارتھاجوکہ ہفتہ عشرہ کے بعدملااوراُس میں بہت ہی دعائیں تحریرفرمائی ہوئی تھیں اور اُس میں یہ بھی تھاکہ اول تووالدصاحب کی طبیعت میں تیری طرف سے انبساط پیداہوگیا ہوگاورنہ ہوجائے گااوریہ انبساط تیرے لیے موجبِ ترقیات ہوگا۔

فقط والسلام                                  

 محتاجِ دعاصغیراحمد                               

وَآخِرُدَعْوَانَاأَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

Scroll to Top